کابل ایئرپورٹ: لوگ صرف ایک سوٹ کیس لے کر طالبان سے بھاگ رہے ہیں
جیسے ہی آپ کابل کے بین الاقوامی ایئرپورٹ کے ٹارمیک پر قدم رکھتے ہیں
تو کوئی چیز آپ کو اینٹ کی طرح لگتی ہے۔
آپ اس گھڑی کی شدت، عجلت اور اندھیرے پن کو محسوس کرتے ہیں۔
ہر سمت امریکہ اور بہت سے دوسرے ممالک کے گہرے سرمئی فوجی ٹرانسپورٹ طیارے کھڑے نظر آتے ہیں۔
فوجی ہیلی کاپٹر آسمان میں گھوم رہے ہیں۔
ہر ایک ہوائی جہاز کی طرف جانے والے افغانوں کی لمبی قطاریں ہیں۔
قطاریں ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ وہ اپنے ملک کو چھوڑ رہے ہیں
اور انھیں بتایا گیا ہے کہ وہ صرف ایک سوٹ کیس ساتھ لے
جا سکتے ہیں اور وہ کپڑے جو وہ پہنے ہوئے ہیں کیونکہ یہ ملک اب طالبان کے کنٹرول میں ہے۔
لیکن یہ صرف ملک نہیں ہے جسے وہ خیرباد کہہ رہے ہیں۔
وہ اس زندگی کو اپنے پیچھے چھوڑ رہے ہیں جو وہ اب تک جیتے آئے ہیں۔
اور نوجوان تعلیم یافتہ نسل کے لیے وہ زندگی چھوٹ رہی ہے جو انھوں نے بنائی ہے اور وہ خواب جو انھوں نے 20 سالوں میں دیکھے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اس ایئر فیلڈ کے اندر 14 ہزار لوگ موجود ہیں
جنھیں امریکی فوجی کنٹرول کر رہے ہیں اور یہ لوگ جہاز پر سوار ہونے کے منتظر ہیں۔
فری لانس صحافی بلال سروری ان لوگوں میں شامل ہیں جو ایئر فیلڈ تک
پہنچنے میں کامیاب رہے۔ انھوں نے سوائے اپنے چند جوڑی کپڑوں اور اپنے
خاندان کے ہر وہ چیز پيچھے چھوڑ دی جس کو بنانے کے لیے انھوں نے سخت محنت کی تھی۔
سروری بی بی سی کے سابق صحافی ہیں۔
ان کی بیٹی کا نام ‘سولہ’ ہے جس کا پشتو زبان میں معنی امن و سلامتی ہے۔
انھوں نے اسے اپنے اس ملک میں پرورش کرنے کا خواب دیکھا تھا جہاں انھوں نے سنہ
2001 میں ایک فکسر اور مترجم کے طور پر
اپنا کریئر شروع کیا تھا اور 20 سال تک افغانستان سے خبریں فراہم کرتے رہے۔
وہ امید کرتے ہیں کہ ان کی بیٹی ایک دن ان کے اپنے ملک سے جانے کے فیصلے کو سمجھ لے گی۔
انھوں نے کہا کہ ‘آج کا دن وہ ہے کہ جس دن افغانوں کی ایک نسل نے اپنے خوابوں
اور خواہشات اور اپنی زندگیوں کو دفن کر دیا ہے۔