سرحد کی بندش یا مقامی کمیٹیوں میں تنازع

ظہور احمد ضلع چاغی کے علاقے دالبندین میں فیصل کالونی بائی پاس کے قریب ایرانی پیٹرول اور ڈیزل فروخت کرتے ہیں مگر گذشتہ دو دن سے ان کی دُکان بند پڑی ہے۔

ظہور احمد کے مطابق انھیں دالبندین کے تیل منڈی سے پٹرول اور ڈیزل دستیاب نہیں ہو پا رہا جس کی بنیادی وجہ پچھلے کچھ دنوں سے علاقے میں ایرانی تیل کی رسد میں سامنے آنے والی انتہائی کمی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ رسد اور طلب میں سامنے آنے والے واضح فرق کے بعد سمگل شدہ ایرانی پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 90 روپے سے بڑھ 180 تا 200 روپے جبکہ فی لیٹر ڈیزل 120 روپے تک میں دستیاب ہے۔

سمگل شدہ پیڑول کی ارزاں نرخوں پر دستیابی کے بعد علاقہ مکین گذشتہ کئی دہائیوں میں پہلی بار پاکستانی پیٹرول کی جانب متوجہ ہوئے ہیں جس کی قیمت لگ بھگ 118 روپے فی لیٹر ہے۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سمگل شدہ ایرانی تیل کا کاروبار دہائیوں سے جاری ہے اور پاکستان کی حکومت نے ماضی میں متعدد بار ملک میں تیل کی سمگلنگ اور فروخت پر پابندی لگانے کے وعدے اور دعوے کیے ہیں لیکن آج تک اس کاروبار کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔

بلوچستان کے بیشتر پیٹرول پمپس پر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتا ہے اور اس صوبے کا پہیہ زیادہ تر سمگل شدہ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کے سر پر ہی چلتا ہے۔ ایرانی پیٹرول کی یہ سمگلنگ نیلے پِک اپ ٹرکوں کے ذریعے ہوتی ہے جنھیی مقامی لوگ ’زمباد‘ کہتے ہیں۔

پاکستانی پیٹرول یا ڈیزل ایرانی تیل کے مقابلے میں ’کافی مہنگا‘ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں مقبول نہیں ہے تاہم گذشتہ چند دنوں میں صورتحال بدلی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *